Wednesday, July 13, 2016

تیرہ جولائی ۔۔۔۔۔۔ داستان سرکل بکوٹ کے سرفروشوں کی
**************************
سرکل بکوٹ کے جہاد کشمیر میں پہلے شہید عبدالرحمان علوی
 پیر بکوٹیؒ کے سوتیلے بیٹے تھے
پیغمبر انسانیت نے خواب میں عبدالرحمان علوی اور ان کے بھائی کا ہاتھ پیر بکوٹی کے ہاتھ میں دیا تھا
انگریز حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کیلئے انہوں نے بیروٹ خورد کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی تھی
عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہم کرتا تھا
سری نگر میں مہاراجہ کے محل کے سامنے حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی
ایک طرف عبدالرحمان علوی شہادت کا رتبہ پا گئے دوسری طرف پیر بکوٹی کا دل دکھانے پرکی دنیا بھی اجڑ گئی
***************************

تحقیق و تحریر: محمد عبیداللہ علوی
*************************
اگر آپ بیروٹ جائیں تو ۔۔۔۔۔ اکھوڑاں بازار میں سید احمد شہید اکیڈیمی سے ملحق راستہ سے نیچے چلتے جائیں تو ۔۔۔۔۔ اگے ایک مسجد اور قدیم قبرستان آئے گا، اس کے پہلو سے مزید نیچے اتریں تو ۔۔۔۔۔ نیچھے ڈھلوان میں ایک مسجد دائیں طرف موجود ہے، یہ جامع مسجد کھوہاس کہلاتی ہے، اسے علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی نے اٹھارہ سو اڑتیس میں مقامی کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی دعوت پر بیروٹ آنے کے بعد اسی قبیلہ کی اعانت سے تعمیر کیا جہاں آج بھی پنجگانہ نماز کے علاوہ انیس سو سات سے نماز جمعہ کی باقاعدہ ادائیگی بھی ہو رہی ہے، اسی مسجد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں مجدد کوہسار حضرت میاں فقیراللہ بکوٹی نے بکوٹ ہجرت سے قبل پانچ سال تک امامت اور خطابت کی اور اپنے خطبات سے اہلیان بیروٹ کے دلوں کو گرمایا شاید اسی تبلیغ اسلام کا اثر تھا کہ اہلیان بیروٹ بالخصوص کاملال ڈھونڈ عباسی برادری نے انہیں سترہ کنال اراضی بھی ہبہ کی، انہوں نے یہاں علوی اعوانوں کے قبیلہ کی ایک بیوہ خاتون ستر جان سے عقد بھی کیا جن میں سے ایک بیٹی راحت نور بھی متولد ہوئی اور وہ پوٹھہ شریف کے منہاس خاندان میں بیاہی گئی، اس دختر پیر بکوٹی کا مزار پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کی جامع مسجد کے سائے میں ہے۔ اسی مسجد کی بائیں جانب ایک اور قدیم قبرستان ہے جہاں اسی علوی اعوان اور کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بزرگ بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔
تھوڑا اور آگے جائیں تو نشیب میں ایک برسوں سے اجڑے گھر کی اداس دیواریں نظر آئیں گی، یہ علوی اعوان برادری کا ابتدائی گھر ہے، حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کی فیملی کیلئے انہی کاملال عباسیوں نے تعمیر کر کے دیا تھا، اسی گھر کو انیس سو ایک سے سات تک حضرت میں پیر فقیراللہ بکوٹی نے اپنا گھر اور آستانہ بھی بنایا تھا، اسی گھر میں سرینگر میں سرکل بکوٹ کے پہلے مجاہد اور شہید حضرت مولانا میاں عبدالرحمان علوی نے بھی جنم لیا تھا ۔۔۔۔۔ جو حضرت پیر بکوٹی کا سوتیلا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔ ہوا یوں کہ ۔۔۔۔۔۔ حضرت بکوٹی نے جب بیروٹ میں ورود کیا تو بیروٹ کی پہلی بگلوٹیاں کی مسجد کے ٹرسٹیوں نے انہیں امامت اور خطابت کی پیش کش کی حالانکہ وہاں میاں جیون شاہ کے پوتے اور میاں فضل حسین شاہ کے والد میاں محمد حسین شاہ بھی امام تھے تاہم انہوں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، پیر بکوٹی نے یہاں امامت کے علاوہ ایک لنگر بھی جاری کیا جہاں مسافروں سمیت علاقہ کے غریب عوام بھی پیٹ بھرنے لگے لیکن ایک رات ۔۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔ خواب میں پیغمبر انسانیت کا دیدار ہوا، اپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی کانپ کر اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ لنگر انتظامیہ سے دریافت کیا کہ وہ کون سے بچے ہیں جو اس لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے ہیں، پھر فرمایا کہ کوئی بھی بچہ بغیر کھائے پئے واپس نہ جائے، اگلی رات پھر دیدار مصطفیٰ ﷺْ ہوا، آپ نے پھر فرمایا ۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے پھر بھوکے پیاسے گھر واپس چلے گئے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ اس روز بھی پیر بکوٹی کی کیفیت کافی متغیر ہوئی ۔۔۔۔۔ آپ خود لنگر پر بیٹھ گئے، تمام لوگوں سمیت بچوں کو خصوصی طور پر خیال رکھا اور خود بھی بعض بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا اور مطمئن ہو گئے کہ ارشاد رسول کی بجا آوری میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر رات کے پچھلے پہر تیسری بار دیدار رسول ہوا ۔۔۔۔۔ آپ کا چہرہ متغیر تھا، آپ ﷺْ نے دو بچوں کی انگلیاں پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔ میاں فقیراللہ ۔۔۔۔۔ یہ یتیم بچے ۔۔۔۔۔ تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس گھر جا رہے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی بیدار ہوتے ہی ۔۔۔۔۔۔ اپنے لنگر کی اس جگہ پر بیٹھ گئے جہاں سے لوگ اندر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ کانپ رہے تھے اور نگاہیں ان بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا ۔۔۔۔۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ان دونوں نحیف و نزار بچوں کو دیگر بچے دھکے دے کر پیچھے کی جانب دھکیل رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ یہ منظر دیکھ کر مزید کانپ گئے ۔۔۔۔۔ اور لپک کر ان دونوں بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔۔۔۔۔ پہلے ان بچوں کو ہاتھ منہ دھلایا اور پھر انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگے ۔۔۔۔۔ راقم کی خاندانی روایات کے مطابق ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی نے ان بچوں کیلئے نئے کپڑے بھی منگوائے اور ان کو پیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ان کے گھر بھی تشریف لے گئے اور ان کی والدہ کی خیریت ہی دریافت نہیں کی بلکہ ان بچوں کی والدہ سے کہا کہ اس خاندان کی کفالت انہی کے ذمہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ بچے بیروٹ میں علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کے پڑ پوتے اور میاں اکبر دین علوی کے صاحبزادے مولانا میں محمد زمان علوی کے بیٹے مولانا میاں عبدالرحمان علوی اور سرکل بکوٹ کی پہلی پی ایچ ڈی اور ماسیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ ہارون کے دادا مولانا میاں محمدعلی علوی تھے ۔۔۔۔۔!
وقت گزرتا رہا ۔۔۔۔۔ دونوں لڑکے بن گئے، انہی کی وساطت سے حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی کے ان کے ماموں مولانا میاں عبدالعزیز علوی سے پیر بکوٹی سے مراسم بنھی  استوار ہوئے اور پھر طویل علمی و دینی محافل بھی شروع ہو گئیں، مولانا میاں عبدالعزیزعلوی مولانا میاں نیک محمد علوی کے بڑے صاحبزادے اور اپنے عہد کے جید عالم دین بھی تھے، ان کے تجیر علمی نے بھی پیر بکوٹی کو بہت متاثر کیا اور آخر کار پیر بکوٹی نے انہیں اپنی فرزندگی میں لینے کی درخواست کی اور مزید کہا کہ ۔۔۔۔۔ وہ ان کی بیوہ بیٹی اور ان کے یتیم بچوں کو باپ کا بھی بھر پور پیار اور شفقت دینے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔۔ مولانا میاں عبدالعزیز علوی نے اپنے دیگر بھائیوں سے مشورہ کیا اور پیر بکوٹی کی درخواست قبول کر لی اور اپنی جگہ کھوہاس کی مسجد کی امامت بھی پیش کر دی، اس طرح حضرت پیر بکوٹی بگلوٹیاں سے کھوہاس منتقل ہو گئے اور لنگر کے علاوہ یہاں پر ہی روحانی محافل بھی شروع ہو گئیں، پیر بکوٹی کا عقد مولانا میاں عبدالعزیز علوی کی بیٹی ستر جان سے ہوا اور یہ مثالی جوڑا بیروٹ کی ڈھوک کھوہاس میں تمام تر روحانی فیوض و برکات کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اس وقت پیر بکوٹی یتیم بچوں عبدالرحمان علوی، محمد علی علوی کے علاوہ عبدالرحیم علوی، عبدالطیف علوی، محمد یعقعوب علوی اور محمد ایوب علوی اور ان کی اکلوتی ہمشیرہ زلیخا کے سوتیلے والد بھی بن گئے۔
عبدالرحمان علوی کڑیل جوان تھے، پیر بکوٹی کی محافل بھی کھوہاس بیروٹ میں عروج پر تھیں، وہ اونچی جگہ بیٹھ کر شہادت کی انگلی سے کنکر پیر بکوٹی کو مارتے جو کبھی انہیں لگتے اور کبھی کبھی ان کی محفل میں بیٹھے لوگوں کو، اس محفل کا مزا کرکرا ہو جاتا، پیر بکوٹی رات کو عبدالرحمان علوی کو سمجھانے اپنے پاس بلاتے اور عبدالرحمان علوی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، اس کی شرارتٰیں بدستور جاری رہیں، ایک روز زچ ہو کر پیر بکوٹی نے غصے میں کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ نکیا، می تنگ نہ کر، تہرتی پیر نہ لگسی اے ۔۔۔۔۔۔ اس کے جواب میں ہاتھ کا پنجہ لہراتے ہوئے عبدالرحمان علوی بولا ۔۔۔۔۔ تہرتی ر نہ سہی، اُپریں اُپریں ژے سہی ۔۔۔۔۔۔ اگلے سال پیر بکوٹی للال شریف ہجرت کر گئے ۔۔۔۔۔ عبدالرحمان علوی نے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی، بہترین خطاطی سیکھی جو اس وقت کے اشٹام پیپرز بھی دیکھی جا سکتی ہے، انہوں نے اس وقت کے حالات کے مطابق انگریز حکومت کے خلاف نوجوانوں کا ایک گروپ بھی بنایا اور بکوٹ پولیس کو تنگ کرنے لگے، ایس ایچ او یا دیگر پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی یہ گروپ غلیل سے انہیں پتھر مار کر زخمی کر دیتا، انیس سو ستائیس میں انہوں نے انگریز حکومت کا مالی نقصان پہنچانے کیلئے بیروٹ خورد کی ماخیر لینڈ سلائیڈ کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی اور اپنے بیروٹ کے ایک دوست پیر خان کے ساتھ مل کر جعلی سکے ڈھالنے لگے، یہ سکے بازار میں پہنچے تو ایک بھونچال آ گیا، ان کے ایک سگے ماموں مولانا میاں محمد جی علوی اس وقت برٹش انٹیلیجنس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، مقامی نمبردار محمد فیروز خان سمیت مولانا میاں محمد جی علوی کو بھی عبدالرحمان علوی اور پیر خان کی ان غیرقانونی سرگرمیوں کا علم تھا مگر ان دونوں حضرات نے کبھی بھی انگریز کے خلاف اس غیر قانونی دھندے کی حکومت کو اطلاع دی نہ ان کو اس کام سے روکا ۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت کی غاصب انگریز حکومت کے خلاف یہ غیر قانونی کام نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا ایک جہاد ہی تھا۔
مولانا عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ میں انیس سو چوبیس میں مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار تھا، اس کے سربراہ وہ خود تھے اور نائب کی حیثیت سے نوجوان پیر خان ان کے دست راست تھے، سرکل بکوٹ بالخصوص بیروٹ کے بااثر لوگوں کی اخلاقی اور مالی امداد بھی انہیں  حاصل تھی، بیروٹ میں برٹش آرمی کے ریٹائرڈ فوجی اور مجاہدین کے ٹرینر محمد آزاد خان، راجہ نذر خان، سردار ولی احمد خان، سردار رستم خان، نمبردار محمد فیروز خان، نذر محمد خان، محمود شاہ، غلام نبی شاہ، ٹھیکیدار محمد امین خان، سردار یعقوب خان، مولانا میر جی علوی، مولانا محمد جی علوی، مولوی غازی اعوان علوی اور بہت سے دیگر لوگوں کی حمایت اور مدد بھی انہیں حاصل تھی، بیروٹ کے ٹرانسپورٹرز ان کی طرف سے فراہم کردہ اسلحہ بسوں کے خفیہ خانوں میں بارہ مولا پہنچاتے جہاں سے کشمیر بھر میں پھیلے مجاہدین کو سپلائی کیا جاتا اس کے علاوہ نقد رقوم بھی یہ ٹرانسپورٹر مجاہدین تک پہنچاتے، انیس سو ستائیس کو مولانا عبدالرحمان علوی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بکوٹ پولیس کو وہ ہاتھ نہ آتے تھے، در اصل انہیں بیروٹ اور باسیاں کے پولیس مخبر پولیس چھاپے سے پہلے ہی آگاہ کر دیتے تھے اور وہ اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے، تاہم انیس سو انتیس میں پولیس تقریباً ان کے سر پر پہنچ گئی، پیر خان تو موجود نہیں تھے،پولیس چھاپے کی اطلاع پر ایک گھنٹہ پہلے وہ ماخیر لینڈ سلائیڈ کے غار سے باہر نکلے، چنجل کے مقام پر پولیس پارٹی سے ملاقات ہوئی، وہ سفید رنگ کے کپڑے اور سفید پگڑی پہنے ہوئے تھے، پولیس نے انہی سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے غار کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ وہ غیر میں بیٹھا حکومت مخالف دھندے میں مشغول ہے، جلدی جائیں کہیں وہ بھاگ نہ جائے ۔۔۔۔۔۔ پولیس وہاں پہنچی تو کوئی نہیں تھا، ادھر مولانا عبدالرحمان علوی اپنے گھر کھوہاس بیروٹ آئے، والدہ، اہلیہ اور اپنے بھائیوں اور بچوں سے آخری ملاقات کی اور دریائے جہلم کو بانڈی بیروٹ سے عبور کر کے کشمیر میں داخل ہو گئے، ساہلیاں میں ان کے ایک بہنوئی رہتے تھے، وہ وہاں ہی قیام پذیر ہوئے اور انہی کے ذریعے مجاہدین سے رابطے شروع کر دئے، راقم کی فیملی روایات کے مطابق چمبیاٹی کے سردار محمد ایوب خان نے انہیں پونچھ سے سری نگر پہنچنے میں ہر طرح کا تعاون کیا، سری نگر پہنچتے ہی انہوں نے مجاہدین کیمپ کو جوائن کیا، ملٹری چھاپہ مار کارروائیوں کی ٹریننگ حاصل کی، اسی دوران آٹھ جولائی انیس سو اکتیس کو ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں سری نگر میں توہین قرآن کا واقعہ ہوا جس کے خلاف کشمیر بھر میں آگ لگ گئی اور پر تشدد ہنگامے شروع ہو گئے، اس موقع پر خانقاہ معلیٰ سرینگر میں نصف لاکھ کشمیری مسلمانوں کا جلسہ عام ہوا جس میں مقررین خصوصاً عبدالقدیر نامی نوجوان نے ایسی دردناک تقریر کی کہ مسلمان ۔۔۔۔۔ اب یا کبھی نہیں ۔۔۔۔۔ کا نعرہ لگا کر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی طرف بڑھنے لگے، یہ تیرہ جولائی اور جمعہ کا دن تھا، نماز جمعہ کی ادائیگی کا وقت بھی آن پہنچا، مسلمانوں نے اذان دینے کیئے اللہ اکبر کی تکبیر بلند کی کہ ۔۔۔۔۔ تڑاخ سے ڈوگرہ فوجی کی گولی موذن کے سینے میں پیوست ہو گئی، دوسرا نمازی آگے بڑھا ور اس نے دوسری تکبیر کہی تو وہ بھی جام شہادت نوش کر گیا۔ مولانا عبدالرحمان علوی بھی آگے بڑھے اور انہوں نے ازان کی تکبیر میں حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک اور گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی، سرکل بکوٹ کا یہ پہلا جوان جہاد آزادی کشمیر کی شاہراہ پر قافلہ شہدائے کشمیر کے ہمراہ باغ بہشت کی جانب رواں دواں ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ چشم فلک نے ان شہدا کا کشمیر میں اس سے پہلے اتنا بڑا جنازہ کبھی نہ دیکھا تھا، نماز جنازہ کے بعد ان شہدا کے جسد خاکی کو سوپور لایا گیا جہاں ان کی تدفین مکمل ہوئی، آج وہاں ان شہدا کے مقبرے موجود ہیں اور وہاں ہر سال عرس ہوتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
مولانا عبدالرحمان علوی کی لمیاں لڑاں بیروٹ کے ممتاز عالم دین مولانا میاں سلطان محمد علوی کی ہمشیرہ صاحب نشاں سے شادی ہو گئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں تین بیٹے عطا فرمائے، سب سے بڑے صاحبزادے فیض عالم علوی، دوسرے محمد اعظم علوی اور تیسرے غلام ربانی علوی تھے۔ فیض عالم علوی کی اہلیہ منہاسہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی تھیں، ان سے ان کی ایک دختر خاتم جان متولد ہوئی جو لمیاں لڑاں بیروٹ کے ہی علوی اعوان قبیلہ کی بہو بنی اور سہراب اعوان کی زوجیت میں آئیں، دوبرس قبل ہی ان کا انتقال ہوا ہے، فیض عالم علوی کے دو نواسے گل عناب اعوان اور افتخار اعوان اور دو نواسیاں ہیں، ان کے دوسرے بیٹے محمد اعظم علوی ہندوستان گئے تو پھر ان کا آج تک کوئی اتا پتہ نہ مل سکا، تیسرے بیٹے غلام ربانی علوی تھے جن کا پے در پے صدمے سہتے سہتے ذہنی توازن خراب ہو گیا، اور وہ ڈھیری شمالی بیروٹ میں صوفی محمد نبی خان مرحوم کے گھر میں رہنے لگے اور وہیں انتقال ہوا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اہلیان سانٹھی بیروٹ کو اپنی درجنوں کنال اراضی بھی فروخت کر ڈالی جس کی رقوم ان کے چچا مولوی ایوب علوی، ڈاکٹر مسعود علوی اور سہراب اعوان کی اہلیہ اور فیض عالم علوی کی بیٹی خاتم جان نے وصول کیں، آج اس دنیا میں مولانا عبدالرحمان علوی کی کوئی اولاد نہیں ہے نہ ہی اہلیان سرکل بکوٹ کو ہی اس عظیم مجاہد اور شہید کے بارے میں ہی کوئی علم ہے ۔۔۔۔۔ بات پھر وہیں آ پہنچتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ایک جانب قدرت نے ان سے تحریک آزادی کشمیر میں کام لیکر انہیں شہید کے درجے پر فائز کرنا تھا اور ان کا بازو پکڑ کر تاجدار انسانیت حضرت محمد مصتفیٰ انہیں کفالت کیلئے حضرت پیر بکوٹی کے سپرد کیا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔ دوسری طرف مولانا عبدالرحمان علوی کا اپنے سوتیلے والد اور اپنے عہد کےمجدد حضرت پیر بکوٹی کا دل دکھانے پر ان کا گھر ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا بھی اجڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ان کا کھوہاس بیروٹ میں آبائی گھربھی کھولا (کھنڈر) بنا ہوا نوحہ کناں ہے بلکہ آج ان کا دنیا میں نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف انہی مولانا عبدالرحمان علوی کے چھوٹے بھائی میاں محمد علی علوی کی اولاد میں ان کی پوی ڈاکٹر طاہرہ ہارون ہے جو سرکل بکوٹ کی ریاضی میں نہ صرف پہلی پی ایچ ڈی ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم میں بیروٹ کا ایک معتبر حوالہ بھی ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے ۔۔۔۔۔ اے اہل بصیرت، ان واقعات سے عبرت پکڑو (سورۃ الحشر، آیت نمبر دو)

ماخذ و مراجع 

اعوان اور اعوان گوتیں از محبت حسین اعوان
پاکستان کا سب سے بڑا قبیلہ ۔۔۔ علوی اعوان از ڈاکٹر ظہور اعوان
علوی اعوان قبیلہ کا ترجمان ۔۔۔۔۔ ماہنامہ شعوب کراچی، چیف ایڈیٹر محبت حسین اعوان


علوی اعوان آف بیروٹ

بیروٹ کے علوی اعوان قبیلہ کا شجرہ نسب

بیروٹ میں علوی اعوانوں کا قدیم قبرستان

بیروٹ کی مختصر تاریخ

بیروٹ کے شعرا اور مصنفین 

علوی اعوان قبیلہ (بیروٹ) کی شخصیات 

علوی اعوان اور بیروٹ کا مشہدی سادات قبیلہ
بیروٹ کے علوی اعوان قبیلہ کی مختصر تاریخ
بیروٹ کے علوی اعوان قبیلہ سے حضرت پیر بکوٹیؒ کا تعلق 
سرکل بکوٹ کے اہم قبائل


بیروٹ کے علوی اعوانوں کا شجرہ نسب